Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":

Home -- Urdu -- John - 110 (Pilate awed by Christ; Pilate's unjust sentence)

This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula? -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حِصّہ چہارم : نُور تاریکی پرچمکتا ہے (یُوحنّا ۱۸: ۱۔۲۱: ۲۵)٠

الف : گرفتاری سے لے کر تیزل و تکفین تک کے واقعات (یُوحنّا ۱۸: ۱۔۱۹: ۴۲)٠

۔۳ : ملک کی عدالت میں رومی گورنر کے روبرو یسُوع کی پیشی (یُوحنّا ۱۸: ۲۸۔۱۹: ۱۶)٠

د : مسیح کی ایزدی فطرت سے پیلاطُس متحیّر ہُوا (یُوحنّا ۱۹: ۶۔۱۲)٠


یُوحنّا ۱۹: ۸۔۱۱
۔۸ جب پیلاطُس نے یہ بات سُنی تو اور بھی ڈرا۔ ۹ اور پھر قلعہ میں جا کر یسُوع سے کہا: “ تو کہاں کا ہے؟ “مگر یسُوع نے اسے جواب نہ دیا۔ ۱۰ پس پیلاطُس نے اُس سے کہا “: تُو مُجھ سے بولتا نہیں؟کیا تُو نہیں جانتا کہ مجھے تجھ کو چھوڑ دینے کا بھی اختیار ہے اور مصلوب کرنے کا بھی اختیار ہے؟ “ ۱۱ یسُوع نے اسے جواب دیا:” اگرتجھے اوپر سے نہ دیا جاتا تو تیرا مُجھ پر کچھ اختیار نہ ہوتا۔ اس سبب سے جس نے مجھے تیرے حوالہ کیا اس کا گناہ زیادہ ہے۔

پیلاطُس کو یسُوع کی شخصیت کے متعلق یقین نہ آتا تھا۔آپ کی راستبازی، پاکیزگی اور محبّت کا جو اثر گورنر پر پڑا تھا وہ رائگاں نہ گیا۔ لہٰذا جب اسے پتا چلا کہ آپ کو محض بادشاہ ہی نہیں بلکہ خدا کا بیٹا بھی مانا جاتا ہے تو وہ چوکنّا ہو گیا۔رومی اور یونانی لوگوں کا عقیدہ تھا کہ آسمان ارواح اور خداؤں سے بھرا ہُوا ہے جو کبھی کبھی مجسِّم ہوکر لوگوں کے درمیان گھوما کرتے تھے۔پیلاطُس کو اندیشہ ہُوا کہ یسُوع کہیں انسان کی شکل میں ایسے ہی ایک قسم کے خدا تو نہیں؟ اس لیے اس نے یسُوع سے پوچھا:”تُو کہاں سے آیا ہے”؟

یسُوع نے سزا ٹالنے کے لیے اس موقعہ کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ خاموش رہے۔ یہ خاموشی معنی خیز تھی۔خدا ایسے سوالات کے جوابات نہیں دیتا جو محض منطق سے تعلق رکھتے ہیں یا محض استعجاب کی خاطر ہوں،لیکن خود کو ایسے معتقدوں پر آشکار کرتا ہے جو اس پر یقین کرتے ہیں۔یونانی اور رومیوں کے اس بارے میں تخیُّل سے وہ مطلق اتفاق نہیں رکھتا کیونکہ اس کے جیسا کوئی اور ہے ہی نہیں۔یسُوع کی اس خاموشی سے پیلاطُس خفا ہو گیا اور آپ سے پوچھا:” کیا تُو مجھ سے بولنا نہیں چاہتا؟مجھے اختیار ہے کہ تجھے مار ڈالوں یا رہا کردوں۔تُو میرے اختیار میں ہے۔ تیرے دشمن تجھے صلیب پر چڑھانا چاہتے ہیں۔ سرف میں ہی تیری جان بچا سکتا ہُوں یا صلیب پر لٹکا سکتا ُوں”۔

مسیح نے یوں جواب دیا ہوتا:” یہ سچ ہے کہ تجھے اختیار ہے اور وہ اختیار میرے باپ نے تجھےدیا ہے۔تُو بذاتِ خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ تیری بے اثری اب سے تھوڑی دیر میں صرف ایک بے انصاف جملہ سے عیاں ہوگی۔میرا آسمانی باپ قادرِ مطلق ہے اور میں خود بھی ہُوں۔اس کی اجازت کے بغیر زمین پر کسی کو اختیار حاصل نہیں ہوتا۔” اس جوازی مرضی کا نتیجہ اکثر تباہی ہوتا ہے جیسا کہ پیلاطُس کے ساتھ ہُوا جسے ایزدی مرضی سے اختیار بخشا گیا تھا۔ خدا دنیا کی تاریخ پر اختیار رکھتا ہے لیکن وہ لوگوں کو اپنے اعمال کی ذمّہ داری میں شرکت کی اجازت دیتا ہے۔دوسروں کے ساتھ تمہارے سروکار کے لیے تُم خود جوب دہ ہوتے ہو۔

یسُوع نے پیلاطُس سے کہا:” تُو نے سنگین گناہ کیا ہے لیکن اس گناہ مین تُو اکیلا ہی شامل نہیں ہے۔سب لوگ گناہوں کے جال میں پھنسے ہُوئے ہیں۔تُو مُجھے صلیب پر لٹکانا نہیں چاہتا لیکن تیری بزدلی اور تُجھ میں بسا ہُوا کائفا کا خوف تجھے مجبور کر رہا ہے کہ تُو مجھے سزا دے۔ “سردار کاہن اس سے بھی بڑا گناہ سرزد کر چُکا ہے کیونکہ وہ یسُوع کوحسد اور نفرت کے باعث صلیب پر لٹکانا چاہتا تھا۔چونکہ وہ اعلیٰ عہدہ پر فائز تھا اس لیے چاہیے تھا کہ وہ خطا کاروں کے ساتھ رحمدلی سے پیش آتا تاکہ ان کا خدا سے میل ملاپ ہو جاتا لیکن وہ بدروحوں کا مطیع ہو گیا اور وہ یسُوع سے اس قدر کراہت تھی کہ آپ کے قتل پر بھی راضی تھا۔


ھ : پیلاطُس کا یسُوع پر غیر مُنصفانہ طور پرسزا کا حکم صادر کرنا ( یُوحنّا ۱۹: ۱۲۔۱۶)٠


یُوحنّا ۱۹: ۱۲
۔۱۲ اس پر پیلاطُس اسے چھوڑ دینے میں کوشش کرنے لگا مگر یہودیوں نے چلّا کر کہا : “اگر تُو اس کو چھوڑ دیتا ہے تو قیصر کا خیر خواہ نہیں۔جو کوئی اپنے آپ کو بادشاہ بناتا ہے وہ قیصر کا مخالف ہے۔

پیلاطُس یسُوع کو رہا کرنا چاہتا تھا کیونکہ قیدی نے اس کے اختیار کو تسلیم کر لیا تھا۔حالانکہ مسیح کی عظمت اور پارسائی نے اس کےاختیار کو محدود رکھا تھا پھر بھی آپ نے پیلاطُس کو دھمکایا نہیں بلکہ ہلکے سے تنبیہ دی۔ آپ نے پیلاطُس کے گناہ اور کائفا کے جرم میں فرق برتا۔ جو آپ کا انصاف کر رہا تھا اسی کے آپ مُنصِف بنے اور اسے ایزدی حقیقتوں کی جانب رجوع کرنے کی کوشش کرنے لگے۔

جب یہودی کاہنوں نے پیلاطُس کے دل میں تبدیلی دیکھی تو انہوں نے سیاسی بحث چھیڑی۔ان کا یہ الزام کہ یسُوع الوہیّت کا دعویٰ کرتے ہیں رومی عدالت میں بے سود ثابت ہوا۔ اس لیے اگر گورنر یسُوع کو قتل نہیں کرے گا تو انہوں نے اس کی قیصرِ روم کے ساتھ بے وفائی کا پردہ فاش کرنے کی دھمکی دی۔

۔“قیصر کے دوست”، کا مطلب بادشاہ کامنظورِ نظر ہوتا ہے۔یہ خطاب بادشاہ کے سفیروں اور شاہی رشتہ داروں کو عطا کیا جاتا تھا۔پیلاطُس کی بیوی ان رشتہ داروں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔چونکہ تبریاس قیصر کسی کا لحاظ نہ کرتا تھا اور مایوسانہ فطرت رکھتا تھا اس لیے وہ اپنے نمائندوں کی صداقت پر شک کر سکتا تھا اور اسے ہمیشہ ان دوستوں میں سے کسی نہ کسی کی طرف سے یہ اندیشہ لگا رہتا تھا کہ وہ کسی بغاوت کی سرپرستی نہ کرنے لگے ۔اگر کوئی شخص قیصر کے دوست پر الزام لگا کر اسے ثابت کرتا تھا تو اس دوست کا زوال یقینی ہوتا تھا، یہاں تک کہ اسے جلا وطن بھی کیا جا سکتا تھا۔

اگر یہودی رہنماؤں نے روم کو خط لکھ کر اطلاع دی ہوتی کہ خود ان کے اپنے لگائے ہُوئے بغاوت کے الزام کے باوجود پیلاطُس نے یہودیوں کے بادشاہ کو رہا کردیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ قیصر کے دشمنوں کو اپنے اطراف اکٹھّا کر رہا ہے۔نتیجہ یہ ہُوا کہ پیلاطُس کا مرتبہ ڈانواں ڈول ہوگیا۔وہ اپنا عہدہ یسُوع کو دینا نہ چاہتا تھا،خواہ سچّائی آپ کے حق میں ہوتی۔ اس خطرہ کی گھنٹی سے اس کی مزاحمت ضائع ہو گئی اور اس نے یسُوع کو قانونی طور پرسزائے مَوت سنانے کی تیّاری شروع کردی۔اس نے خود کو یسُوع کا خون بہانے کے الزام سے بری رکھنے کے لیے ضروری اقدام اُٹھائے۔بظاہر تو ایسا لگتا تھا کہ اس نے درست فیصلہ سنایا لیکن اپنے دل ہی دل میں وہ جانتا تھا کہ اس کا فیصلہ سراسر نا انصافی تھا۔

یُوحنّا ۱۹: ۱۳۔۱۶ الف
۔۱۳ پیلاطُس یہ باتیں سُن کر یسُوع کو باہر لایا اور اس جگہ جو چبوترہ اور عبرانی میں گبتّا کہلاتی ہے، تختِ عدالت پر بیٹھ گیا۔ ۱۴ یہ فسح کی تیاری کا دن اور چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔پھر اس نے یہودیوں سے کہا: “دیکھو یہ ہے تمہارا بادشاہ۔” ۱۵ پس وہ چلّائے کہ” لے جا، لے جا! اُسے مصلوب کر!”پیلاطُس نے اُن سے کہا:” کیا میں تمہارے بادشاہ کو مصلوب کروں؟ “سردار کاہنوں نے جواب دیا کہ” قیصر کے سوا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔” ۱۶ الف اس پر اُس نےاُس کو اُن کے حوالہ کیا کہ مصلوب کیا جائے۔

پیلاطُس یہودیوں کی مسیح کی آمد کی امیّد کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ان کے روم کی علانیہ نافرمانی کا مضحکہ اڑاتے ہوئے پیلاطُس نے کہا:”تُم نے یسُوع پر الزام لگایا جس نے بادشاہی کا دعویٰ کیا۔اپنی بے اختیار بادشاہی سنبھالو۔تُم سب اسی کی طرح ہو جن پر دھیان دینے کی مطلق ضرورت نہیں!”۔

یہودیوں نے اس مضحکہ کا مطلب تاڑ لیا جس سے ان کی یسُوع کے خلاف کی گئی شکایت خود اُن کی توہین بن گئی۔وہ سب مل کر چلاّئے: “اسے صلیب دے تاکہ وہ شرمندہ ہو ۔اس پر لعنت ہے۔اسے صلیب دے”۔

بھائی، جن لوگوں نے اس روز آنسو بہائے وہ ان کی شریعت کے مطابق پارسا لوگ تھے لیکن اندھے ہو گیے تھے اس لیے نہ تجسیم شدہ محبّت کو پہچان سکے، نہ ایزدی شفقت و التفات کو جان سکےاور نہ ہی یسُوع کو خدا کے قُدس میں معمور دیکھ سکے۔وہ آپ سے نفرت کرتے تھے اور آپ کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ نہ تعصُّب اور نہ شوق اور ذوق لوگوں کو خدا کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ صرف مسیح میں منکشف محبّت ہی آپ کے رحم و کرم اور قربانی دیکھنے کے لیے ہماری آنکھیں کھول سکتی ہے۔

پیلاطُس نے طیش میں آئے ہُوئے یہودیوں پر اپنی حقارت کا اظہار کرتے ہُوئے پھر ایک بار یسُوع کو ، بادشاہ، کہا اور یہ ثابت کر دیا کہ ساری آبادی یسُوع کو قتل کرنے پر تُلی ہُوئی ہے۔پیلاطُس نے خود پر ملامت کرنے والے اپنے باطن کو تسلّی دینے کے لیے بہانہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ چینخ پُکار کرنے والی بھیڑایک آواز ہوکر اپنا قصد دہرا رہی تھی کہ یسُوع کو صلیب دی جائے۔لوگوں کی آواز خدا کی آواز نہیں ہوتی کیونکہ وہ اکثر اوقات اپنے ارادوں اور دنیاوی منصوبوں میں غلطی کر بیٹھتے ہیں اور شیطان ان موقعوں کا ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے۔

پیلاطُس کے بار بار مذاق اُڑانے سے کاہن بیزار آ چُکے تھے۔انہوں نے مزید ایک حیرت انگیز اعلان کیا کہ “قیصر کے علاوہ ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔” یہ خود ریاکاری تھی۔ کاہنوں کے حلقہ کو مسیحی تحریک اوراُس نام نہاد بادشاہ، ہیرودیس سے جس سے وہ نفرت کرنے تھے، خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔انہوں نے قیصر کو ترجیح دی جو یونانی معاشرہ کا محافظ تھا اور ملک میں نظم و نسق برقرار رکھے ہُوئے تھا۔اس طرح انہوں نے پرانے عہدنامہ کی تمام پیش گوئیوں کو اور مسیح کی آمد کے متعلق سبھی اُمیّدوں کو بالائے طاق رکھا۔ گناہوں کا باپ اپنی اولاد کو اسی طرح ترغیب دیتا ہے۔ البتّہ صرف یسُوع ہی عدالت میں سچّائی کا دامن تھامے رہے اور اپنے باطن میں خدا کی ندا سُنتے رہے اور اپنی دیانتداری کو برقرار رکھے رہے۔

بلآخر پیلاطُس نے خود غرضی، کینہ اور فریب سے مغلوب ہوکر یسُوع کے لیے سخت سے سخت سزا کا اعلان کیا۔خدا کا بیٹا اپنے باپ کی ہدایت پر اعتقاد رکھتے ہُوئے ، جس نے گورنر کو اپنے بیٹے کو صلیب دینے کی اجازت دی تھی، خاموش کھڑا رہا۔اس بے انصافی کے فیصلہ کے باعث یسُوع نے نوعِ انساں اور خدا کے درمیان میل ملاپ کرانے کا کام تکمیل کو پہنچایا۔بدروحوں نے سوچا کہ اُن کی جیت ہو گئی لیکن وہ خدا کا منصوبہ تھا جو جہنم کی طاقتوں کی دھوکے باز دخل اندازی کے باوجود پایہ تکمیل کو پہنچا۔

دعا: خداوند یسُوع، ہم آپ کے حضور سرنگوں ہوتے ہیں۔آپ خدا کا برّہ ہیں جو دنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ہمیں رحمدل، سچّا اور راستباز دل عنایت کیجیے۔ہماری مدد کیجیے تاکہ ہم دوسروں کا اپنے مفاد کے لیے ناجائز فائدہ نہ اُٹھائیں اور ہمیں ایسی ترغیب دیجیے کہ موت کو دھوکے بازی پر ترجیح دیں اور شیطان سے ہاتھ نہ ملائیں۔

سوال ۱۱۴۔ پیلاطُس نے یسُوع کو سزا کیوں دی؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on May 28, 2012, at 05:04 PM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)