Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":

Home -- Urdu -- John - 109 (The choice; The flogging of Jesus; Pilate awed by Christ)

This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula? -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حِصّہ چہارم : نُور تاریکی پرچمکتا ہے (یُوحنّا ۱۸: ۱۔۲۱: ۲۵)٠

الف : گرفتاری سے لے کر تیزل و تکفین تک کے واقعات (یُوحنّا ۱۸: ۱۔۱۹: ۴۲)٠

۔۳ : ملک کی عدالت میں رومی گورنر کے روبرو یسُوع کی پیشی (یُوحنّا ۱۸: ۲۸۔۱۹: ۱۶)٠

ب : یسُوع اور بربّاس میں سے کسی ایک کا انتخاب (یُوحنّا ۱۸: ۳۹۔۴۰)٠


یُوحنّا ۱۸: ۳۹۔۴۰
۔۳۹ مگر تمہارا دستور ہے کہ میں فسح پر تمہاری خاطر ایک آدمی چھوڑ دیا کرتا ہُوں۔پس کیا تُم کو منظور ہے کہ کہ میں تمہاری خاطر یہودیوں کے بادشاہ کو چھوڑ دُوں؟ ۴۰ اُنہوں نے چلّا کر پھر کہا کہ اس کو نہیں لیکن بربّا کو۔اور بربّا ایک ڈاکو تھا۔

پیلاطُس کو یقین ہوگیا کہ یسُوع سچ کہہ رہے تھے اور آپ سے کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ وہ باہر یہودیوں کے پاس گیا جو عدالت میں منتظر بیٹھے تھے اور سب کے سامنے گواہی دی کہ ملزم بے قصور ہے۔چاروں اناجیل تصدیق کرتی ہیں کہ مذہبی عقائد اور معاشرتی قوانین ، دونوں کے مطابق یسُوع بے گناہ تھے۔گورنر کی حیثیت سے پیلاطُس، یسُوع پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا تھا۔لہٰذا معاشرتی اختیار رکھنے والے ایجنٹ نے یسُوع کی معصومیت کو تسلیم کر لیا۔

پیلاطُس اس اجنبی شخص سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہودیوں کی خوشنودی کے لیے بھی فکرمند تھا۔۔اس نے سجھاؤ دیا کہ ہر سال عید کے موقع پر کسی ایک قیدی کو معاف کرکے رہا کرنے کے دستور کے مطابق وہ اِس مجرم کو رہا کرے گا۔اس نے یسُوع کو مضحکہ میں یہودیوں کا بادشاہ کہہ کر سردار کاہن کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ (پیلاطُس نے سوچا کہ) اگر وہ یسُوع کو بری کرتا ہے تو اس صورت میں یسُوع اپنی شہرت اور مقبولیت کھو بیٹھتے کیونکہ آپ اپنی قوم کو روم کی غلامی سے آزاد کرنے میں ناکام رہتے۔

لیکن کاہن اور عوام ،یہودیوں کے بادشاہ کا خطاب سُن کر پاگل ہو گیے۔وہ ایسے بادشاہ کے منتظر تھے جو قومی سورما، با اقتدار شخص اور سخت مزاج ہوتا۔لہٰذا انہوں نے بربّا کو،جو ڈاکو تھا، اِس رہائی کے لیے چُن لیا اور اس طرح انہوں نے ایک گنہگار کو خدا کے قدُّوس پر ترجیح دی۔

صرف عدالتِ عالیہ کے اراکین ہی نہیں جو یسُوع کی مخالفت کرتے تھے بلکہ عوام بھی آپ سے نفرت کرتے تھے۔لہٰذا کیا تُم اس کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے رہوگے جو حق،فروتن اور اسلح سے خالی ہے یا تُم عالم شرع کی طرح ہو جو تشدّد اور فریب پر بھروسہ رکھتا ہے اور رحم اور سچّائی دونوں کو ترک کر دیتا ہے؟


ج : الزام لگانے والوں کے روبرو یسُوع کو کوڑے لگائے جانا ( یُوحنّا ۱۹: ۱۔۵)٠


یُوحنّا ۱۹: ۱۔۳
۔۱ اس پر پیلاطُس نے یسُوع کو لے کر کوڑے لگوائے۔ ۲ اور سپاہیوں نے کانٹوں کا تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھا اور اسے ارغوانی پوشاک پہنائی۔ ۳ اور اس کے پاس آکر کہنے لگے،ـاے یہودیوں کے بادشاہ، آداب!ـ اور اس کے طمانچے بھی مارے۔

پیلاطُس کے لیے لازمی تھا کہ وہ یسُوع کو رہا کرتا اور آپ پر الزام لگانے والوں کو گرفتار کرتا لیکن اس نے ایسا نہ کیا بلکہ واقعات کو توڑ مروڑ کر مصالحت سے کام لینے کی کوشش کی۔چنانچہ اس نے یسُوع کو کوڑے لگوانے کا حکم دیا۔ایسی سزا ہولناک اور تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ کوڑے لگانے کے چابک میں ہڈّیوں اور سیسہ کے ٹکڑے جُڑے ہُوئے ہوتے ہیں جو جلد کو کاٹ دیتے ہیں۔جب فوج کے سپاہی یسُوع کے ساتھ بری طرح سے سلوک کر چُکے تب اُنہوں نے آپ کو ایک کھمبے سے باندھ دیا اور آپ کی پیٹھ کو برہنہ کر کے آپ کے جسم پر کوڑے برسانا شروع کیا۔آپ کی جلد اور گوشت پر گہرے زخم پڑ گئے جن کی وجہ سے آپ کو ایسی شدّت کا درد ہونے لگا جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔جن لوگوں کو ایسی اذیّت پہنچائی جاتی ہے اُن میں سے کئی اس سزا کے دوران ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ہمارے معصوم خداوند نے اپنے جسم اور جان میں شدید کُوفت اُٹھائی۔

تب سپاہی مضحکہ جاری رکھتے ہُوئے یسُوع کو ایسی زخمی حالت میں لے گئے۔ان سپاہیوں کو یہودی تخریب کا خوف لاحق تھا اور وہ رات کو گشت لگانے کی جرأت نہ کر پاتے تھے۔ان سپاہیوں کے لیے انتقام لینے کا یہی بہترین موقعہ تھا جب وہ اس شخص کو اذیّت پہنچانے پر تُلے ہُوئے تھے جو یہودیوں کا بادشاہ کہلاتاتھا۔اس مضطرب قوم کے خلاف انہیں جتنی بھی عداوت تھی وہ اُنہوں نے یسُوع پر اُنڈیل دی۔ان میں سے ایک سپاہی نے دوڑ کر جاکے کانٹے دار جھاڑی میں سے ایک ٹہنی کاٹ کر لائی اور اس کا تاج بنا کر مسیح کی پیشانی پر رکھّا۔اس تاج کے دباؤ سے خون بہہ نکلا۔کچھ اور سپاہی کسی افسر کے استعمال کیے ہُویے کپڑے لے کر آئے اور اُنہیں آپ کے بدن پر لپیٹ دیا۔خون ارغوانی رنگ میں بدل گیا۔یہاں تک کہ یسُوع خون میں آلودہ نظر آنے لگے۔اس اذیّت میں اضافہ کے طور پر آپ کو لاتیں ماری گئیں اور بے دردی سے چُٹکیاں لی گئیں۔ بعض سپاہی آپ کے آگے سرنگوں ہُوئے گویا آپ کو تاج پوشی کے لیے تیّار کر رہے ہوں۔ ممکن ہے کہ شاہی افواج مختلف یورپی ملکوں کی نمائندگی کرتی ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے کئی قبائل نے اس تضحیک اور کفر میں حصّہ لیا جو خدا کے برّہ کے ساتھ کیا گیا۔

یُوحنّا ۱۹: ۴۔۵
۔۴ پیلاطُس نے پھر جاکر لوگوں سے کہا کہ دیکھو، میں اسے تمہارے پاس لے آتا ہُوں تاکہ تُم جانو کہ کہ میں اس کا کچھ جرم نہیں پاتا۔ ۵ یسُوع کانٹوں کا تاج رکھے اور ارغوانی پوشاک پہنے آیا اور پیلاطُس نے ان سے کہا: دیکھو، یہ آدمی۔

پیلاطُس نے یسُوع کی فائل کا معائنہ کیا اور اسے معصوم پایا۔وہ تیسری بار باہر یہودیوں کے پاس گیا اور پھر سے گواہی دی:”مُجھے اس میں کوئی قصور نظر نہیں آتا۔” بلآخر اس نے انہیں اپنے سامنے اکٹھا کرنا چاہا تاکہ فریب کا پردہ فاش ہو سکے اور سچّائی ظاہر ہو۔

اس نے یسُوع کو باہر لایا۔آپ کی حالت نا گفتہ بہ تھی۔آپ کے بدن پر گھونسوں کے نشان دکھائی دیتے تھے، آنکھوں سے آنسوؤں کا چشمہ جاری تھا ، جسم خون آلودہ تھا، پیشانی پر کانٹوں کا تاج رکھّا ہُوا تھا اور کندھوں پر سرخ چوغہ تھا جو خون سے تر ہو چُکا تھا۔

کیا تُم خدا کے برّہ کی اس تصویر کا اندازہ لگا سکتے ہو جو دنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے؟آپ کی تذلیل و تحقیر دراصل آپ کی سرفرازی تھی کیونکہ آپ کے صبر میں آپ کی بے نظیر اور لاثانی محبّت عیاں ہوتی ہے۔آپ ان لوگوں کے سامنے کھڑے تھے جو شرق و غرب کی نمائندگی کر رہے تھے،جنہوں نے آپ کا مضحکہ اُڑاکر اور آپ کے ساتھ برا سلوک کرکے آپ کو کانٹوں کا تاج پہنایا۔دنیا کے سبھی تاج اُن کے چمکتے ہُوئے جواہرات کے ساتھ اِس کانٹوں کے تاج کے سامنے کوئی قیمت نہیں رکھتے۔جو اس خون سے ملبوس تھا وہ سب گناہوں کا فدیہ ادا کرتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل پیلاطُس نہایت سخت مزاج شخص تھا لیکن یسُوع کی یہ شکل دیکھ کر وہ متاثر ہُوا۔یسُوع کے چہرہ پر نفرت بالکل نہ تھی، نہ آپ کے لب پر کوئی لعنت تھی بلکہ آپ خاموشی کے ساتھ اپنے آسمانی باپ سے استدعا کر تےرہے ، اپنے دشمنوں کو برکتیں عنایت کرتے رہے اور ان لوگوں کے گناہ اپنے کندھوں پر اُٹھائے رہے جو آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔اچانک گورنر نے یہ جازب توجہ الفاظ کہے: “یہ رہا وہ آدمی!” اس نے اس آدمی کی عظمت و جلال اور وقار کو محسوس کیا گویا وہ مسیح کے متعلق کہنا چاہتا تھا: “یہ وہ انوکھا آدمی ہے جو خدا کی شبیہہ پر ہے۔” آپ کا رحم مَوت کی گھڑی میں بھی منتشر ہو رہا تھا۔ آپ کی کمزوری اور بگڑے ہُوئے حُلیہ میں آپ کا تقدّس عیاں ہو رہا تھا۔آپ خود اپنی خطاؤں کے لیے یہ تکلیف برداشت نہیں کر رہے تھے بلکہ میرے اور تمہارے گناہوں کے لیے اور نوعِ انساں کی خطاؤں کے لیے۔


د : مسیح کی ایزدی فطرت سے پیلاطُس متحیّر ہُوا (یُوحنّا ۱۹: ۶۔۱۲)٠


یُوحنّا ۱۹: ۶۔۷
۔۶ جب سردار کاہن اور پیادوں نے اسے دیکھا تو چلّا کر کہا،مصلوب کر مصلوب! پیلاطُس نے اُن سے کہا:”تُم ہی اسے لے جاؤ اور مصلوب کرو کیونکہ میں اُس کا کچھ جرم نہیں پاتا۔” ۷ یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ “ ہم اہلِ شریعت ہیں اور شریعت کے موافق وہ قتل کے لائق ہےکیونکہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا بنایا۔

طویل عرصہ تک یہ زد و کُوب جاری رہی اور ایک بڑی بھیڑ گورنر کے پھاٹک پر جمع ہو گئی۔یہودی رہنما اپنا رویّہ بدلنے یا اپنی سخت دلی ترک کرنے کے لیے راضی نہ تھے۔بلکہ اس بات پر رضامند تھے کہ یسُوع کی مَوت فوراً ہو۔انہوں نے اپنی مرضی انتہائی شور و غُل اور ہنگامہ کے ساتھ ظاہر کردی۔ان میں سے جو کوئی نرمی سے پیش آنا چاہتے تھے وہ شکستہ دل اور خوفزدہ ہو ئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ خدا نے یسُوع کو ترک کر دیا ہے۔یسُوع نے معجزانہ طور پر اپنی جان بچا کر اُنہیں مطمئن نہیں کیا اس لیے تقاضائے مَوت اور بھی زور پکڑ گیا اور پیلاطُس سے توقع رکھی گئی کہ وہ آپ کو سخت سے سخت سزا دے۔ چنانچہ انہوں نےیسُوع سے قطع تعلق کر لیا اور نہایت شرم ناک مَوت کے حوالہ کر دیا۔

اس وقت پیلاطُس کو خصوصاً بلوہ کے آثار نظر آنے لگے، لیکن وہ کسی کو بھی خلافِ قانون مَوت کی سزا دینے کے لیے راضی نہ تھا۔ اس لیے اس نے یہودیوں سے کہا: “اسے لے جاؤ اور صلیب دو، حالانکہ مجھے اس میں بالکل شک نہیں کہ وہ بے گناہ ہے۔” یہ تیسرا موقعہ تھا جب اس نے اقرار کیا کہ یسُوع بے گناہ تھے۔اس سے پیلاطُس نے خود اپنا انصاف کیا کہ وہ خطا کار ہے کیونکہ اسے کسی بے گناہ قیدی کو کوڑے مارنے کا بھی حق نہ تھا۔

یہودی جانتے تھے کہ رومی قوانین کے مطابق انہیں کسی کو سزائے مَوت سنانے کا حق نہیں ہے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو پیلاطُس اُن کی مخالفت کرتا،خواہ اس نے انہیں تسلّی دی تھی۔یہودی شریعت میں کسی مجرم کو صلیب پر لٹکانے کی گنجائش نہ تھی۔انہیں صرف سنگسار کرنے کا اختیار تھا۔یسُوع نے، بقول اُن کے، کفر بکا تھا اس لیے آپ کو شریعتِ موسیٰ کے مطابق سنگسار کیا جانا چاہئے تھا۔

یہودی بزرگ جانتے تھے کہ اگر مسیح کا ایزدی الوہیّت کا دعویٰ سچ ہوتا تو اُنہیں آپ کے آگے سجدہ کرنا چاہئے تھا۔صلیب سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ آپ ایزدی ہستی نہیں تھے۔ورنہ آپ اس قدر شدید اذیت نہ سہتے۔اس طرح وہ لوگ یسُوع کی مَوت سے راستباز ٹھہرتے،آپ کے کفّارہ کے خون سے نہیں بلکہ محض صلیبی مَوت سے جو خدا کی مرضی سے ہُوئی ہوتی۔

دعا: خداوند یسُوع، آپ نے برداشت کیے ہوئے درد اور شدید جسمانی اذیت کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ جو کوڑے ہمیں کھانے تھے وہ ہماری خاطر آپ نے برداشت کیے۔آپ کے صبر، محبّت اور عظمت کی ہم تمجید کرتے ہیں۔آپ ہمارے بادشاہ ہیں۔ہمیں توفیق دیجیے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں، اپنے دشمنوں کے لیے برکت چاہیں اور نفرت کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں۔ہم آپ کی تمجید کرتے ہیں کیونکہ آپ کے خون سے ہمارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ہمیں اپنے تقدّس میں مستحکم کیجیے تاکہ ہم سدا ہمدردی سے پیش آتے رہیں اور آپ نے برداشت کیے ہُوئے غموں کی خاطر آپ کے مشکور رہیں۔

سوال ۱۱۳۔ مار پیٹ سے چکناچور بدن، سرخ چوغہ اور کانٹوں کا تاج پہنے ہُوئے یسُوع کی شکل سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on May 28, 2012, at 04:02 PM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)