Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":
Home -- Urdu -- John - 080 (Men harden themselves)
This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula? -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حِصّہ سوّم : رسُولوں کے حلقہ میں نُورچمکتا ہے (یُوحنّا ۱۱: ۵۵۔۱۷: ۲۶)٠

الف : مبارک ہفتہ کا آغاز (یُوحنّا ۱۱: ۵۵۔۱۲: ۵۰)٠

۔۵ : لوگ عدالت کی جانب اپنے دل سخت کر لیتے ہیں ( یُوحنّا ۱۲: ۳۷۔۵۰)٠


یُوحنّا ۱۲: ۳۷۔۴۱
۔۳۷ اگرچہ اُس نے اُن کے سامنے اتنے معجزے دکھائے تو بھی وہ اُس پر ایمان نہ لائے۔ ۳۸ تاکہ یسعیاہ نبی کا کلام پورا ہو جو اُس نے کہا کہ:اے خداوند ہمارے پیغام کا کس نے یقین کیا ہے؟اور خداوند کا ہاتھ کس پر ظاہر ہُوا ہے؟ ۳۹ اس سبب سے وہ ایمان نہ لاسکے کہ یسعیاہ نے پھر کہا: ۴۰ اُس نے اُن کی آنکھوں کو اندھا اور اُن کے دل کو سخت کر دیا۔ایسا نہ ہو کہ وہ آنکھوں سے دیکھیں اور دل سے سمجھیں اور رُجوع کریں اور میں اُنہیں شا بخشوں۔ ۴۱ یسعیاہ نے یہ باتیں اِس لیے کہیں کہ اُس نے اُس کا جلال دیکھا اور اُس نے اُسی کے بارے میں کلام کیا۔

یسُوع نے یروشلیم میں محبّت کی نیّت سے کئی معجزے کیے۔کئی لوگ اپنی مرضی سے آپ کی قدرت سے واقف ہُوئے اور یہ بھی جان گئے کہ آپ کہاں سے آئے تھے۔لیکن متعصُّب لوگوں نے خود کو پرانے خیالات میں مُقفّل کر لیا اور یسُوع کو پہچان نہ پائے کیونکہ اُنہوں نے آپ کو پیچ دار منطق اور تعصُّب کے پیمانہ سے ناپا۔

کئی لوگوں کے دماغ میں اُن کے مخصوص خیالات بھرے ہُوئے ہوتے ہیں اور وہ خدا کی آواز نہیں سُن پاتے۔پاک رُوح نہایت نرمی اور خاموشی سے بات کرتا ہے جسے سُننے کے لیے دل سے دھیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن باغی لوگ جو پاک رُوح کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ وہ اِنجیل کا پیغام سُناتا ہے، نہ صرف اپنی جانوں کو سخت کر لیتے ہیں بلکہ خدا بھی اپنے انصاف کے تقاضہ اور غضب کی بنا پر اُن کے اندر پائی جانے والی قوتِ سمع و بصر نکال لیتا ہے اور اس طرح اُنہیں سخت کر دیتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں کی واقفیت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔خدا نجات اور عدالت کا ذریعہ ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ چند خاندان، قبیلے اور قومیں خدا کے غضب کے ماتحت جیتی ہیں۔ خدا اُن لوگوں کو بھُلا دیتا ہے جو اُنہیں واپس اپنی مخلص ہدایات کی جانب راغب کرنے کی کوششوں کے باوجود، مستقل طور پر اُس سے الگ ہو جاتے ہیں۔خدا اُن لوگوں کو سخت کر دیتا ہے جو اُس کے پاک رُوح کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔وہ سب جو جان بُوجھ کر خدا کی محبّت کو پامال کرتے ہیں اور مسیح کی تاثیر کو ٹھر اتے وہ سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں۔خدا اپنے تقدُّس کے باعث بے وفا لوگوں کو رفتہ رفتہ سخت کر دیتا ہے تاکہ وہ دوزخ کا عذاب پائیں۔خدا کا اس کی مخالفت کرنے والوں کے دلوں کو سخت کرنے کا تصوّر کوئی انوکھا فلسفہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے جلال سے ہے۔یہ تسوّر یسعیاہ نبی کو اس وقت سمجھ میں آیا جب اُنہوں نے سُنا کہ خدا اُنہیں اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ اُن کے دل سخت کرنے کے لیے بھیج رہا ہے (یسعیاہ ۶: ۱۔۱۳)،محبّت کے موضوع پر تقریر کرنا، خدا کے غضب اور سزا سے متنبہ کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔خدا کی محبّت، تقدّس، سچاّئی اور انصاف سے مخلوط ہوتی ہے، خدا کے حُضور کوئی بدی کھڑی نہیں رہ سکتی بلکہ اس کے جلال کی شعاؤں سے وہ دور بھاگ جائے گی۔ چونکہ یسُوع مقدّس محبّت ہیں جو مجسِّم ہُوئے، آپ کی ہستی لوگوں کو الگ کرتی ہے۔یُوحنّا نہایت دلیری کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ جس ہستی کو یسعیاہ نے تخت پر بیٹھا ہُوا دیکھا وہ یقیناً یسُوع ہیں کیونکہ خدا اور اس کا بیٹا،تقدُّس اور جلال میں ایک ہیں۔

یُوحنّا ۱۲: ۴۲۔۴۳
۔۴۲ تو بھی سرداروں میں سے بھی بہتیرے اُس پر ایمان لائےمگر فریسیوں کے سبب سے اقرار نہ کرتے تھے تا ایسا نہ ہو کہ عبادت خانہ سے خارج کیے جائیں۔ ۴۳ کیونکہ وہ خدا سے عزّت حاصل کرنے کی نسبت انسان سے عزّت حاصل کرنا زیادہ چاہتے تھے۔

مبشِّر یُوحنّا کی سردار کاہن کے خاندان سے جان پہچان تھی (یُوحنّا ۱۸: ۱۵)۔ یُوحنّا ہمیں بتاتے ہیں کہ عوام کے یسُوع سے دور رہنے کے باوجود بعض معزز حکاّم آپ پر ایمان لائے تھے۔وہ جانتے تھے کہ خدا آپ کے ساتھ تھا اور آپ کا کلام ،قوّت اور سچاّئی سے پُر تھا لیکن اُنہوں نے اپنے ایمان کی علانیہ گواہی نہ دی۔

ایسے لوگ ایسے فیصلوں سے اتفاق کیوں کرتے ہیں جب کہ وہ اُن کے ضمیر کی آواز کے خلاف ہوتے ہیں۔ دراصل وہ فریسیوں سے ڈرتے تھے اور تحفُّظ اور ناموری کوحق پر ترجیح دیتے تھے۔فریسیوں نے اہل یروشلیم کو دھمکی دی تھی کی اگر کوئی یسُوع کی حمایت کرتا ہُوا پایا گیا تو قوم اور عبادت خانہ سے خارج کر دیا جائے گا۔چنانچہ یہ نمائندے اپنی شہرت اور ناموری کھونے اور ایسی ممانعت اور اذیّت کے شکنجہ میں آنےسےہچکچا رہے تھے۔جو کوئی قوم سے خارج کیا جاتا اسے خرید و فروخت کرنے، شادی بیاہ رچانے یا اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کے ساتھ عبادت کرنے نہ دیا جاتا تھا۔ اُسے جُذام کا مریض سمجھا جاتا تھا جو معاشرہ میں اپنی بیماری پھیلایا کرتا تھا۔

خُفیہ طور پر ایمان لانے کے باوجود یہ نمائندے اقرار کیوں نہ کرتے تھے؟وہ خدا کی طرف سے عزّت پانے کی بجائے انسانوں کی طرف سے عزّت پانے کے زیادہ دلدادہ تھے ۔خدائے قدُّوس کو خوش کرنا اُن کا مقصد نہ ہُوا کرتا تھا؛ وہ اپنے خداوند کی بجائے خود ہی سے زیادہ محبّت کرتے تھے۔

لعنت اُس پر جو صرف خُفیہ طور پر ایمان لاتا ہے اور اپنے اعمال سےیوں جتاتا ہے جیسے وہ یسُوع کو جانتا ہی نہ ہو۔ایسا شخص اپنے خداوند کا خطرہ کی گھڑی میں بھی انکار کرے گا۔وہ اپنی سلامتی اور نیک نامی کو خدا کی طرف سے بخشے ہُوئے شرف و عزّت اورسایۂ عاطفت سے بہتر سمجھتے ہیں۔اپنے خداوند اور مُنجی کا اقرار کیجیے اور یقین کیجیے کہ یسُوع اپنی خوشی کےمطابق تمہیں ہدایت دیتے رہیں گے۔

یُوحنّا ۱۲: ۴۴۔۴۵
۔۴۴ یسُوع نے پکار کر کہا:جو مُجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مُجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتا ہے ۴۵ اور جو مُجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔

یسُوع نے سخت الفاظ میں اپنی تعلیم کا خلاصہ پیش کرتے ہُوئے اپنے لوگوں کو توبہ کرنے کے لیے کہا لیکن ساتھ ہی ساتھ رُوح سے معمور لوگوں کو وہی تعلیم آسان الفاظ میں پیش کی۔اوّل تو اِس میں تضاد معلوم ہُوا گویا آپ کہہ رہے ہوں:"جومُجھ پر ایمان لاتا ہے وہ مُجھ پر ایمان نہیں لاتا!" یسُوع کسی بھی شخص کو خود اپنے آپ ہی سے جکڑ کر نہیں رکھتے بلکہ بیٹا اپنے سبھی پیروؤں کو براہ راست باپ کی طرف راغب کرتا ہے۔آپ خود کو خصوصی حقوق سے خالی کر لیتے ہیں، نہ ہی آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ لوگ صرف آپ پر ایمان لائیں۔بیٹا باپ کو لوگوں کے ایمان سے محروم نہیں رکھتا۔ چنانچہ آپ خدا کی عظمت میں سے کچھ بھی نہیں لیتے بلکہ ہمیشہ اسے ظاہر کرتے اور اُس کی تمجید کرتے رہتے ہیں۔

اس کے برعکس معاملہ بھی صحیح ہے۔بیٹے کی معرفت ہی کوئی شخص باپ تک پہنچ سکتا ہے۔جب تک بیٹے پر ایمان نہیں لایا جاتا، باپ پر ایمان لانا ممکن نہیں۔باپ نے سبھی ایمان داروں کو آپ کے حوالہ کیا ہے تاکہ وہ آپ کے خصوصی لوگ بنیں اور آپ کو سبھی ایزدی اوصاف سے نوازا ہے چنانچہ فروتن بیٹا گھمنڈ کے بنا دعویٰ کر سکتا ہے:"جس نے مجھے دیکھا ہے اُس نے میرے بھیجنے والے کو دیکھا ہے۔" یسُوع خدا کی طرف سے بھیجے ہُوئے اصلی رسُول ہیں جو خدا کی قدرت اور جلال کے مالک ہیں لہٰذا آپ کی وفاداری لازمی ہے۔یسُوع ایزدی زندگی، نُور اور شان و شوکت کے جوہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہم کسی اور خدا کو نہیں جانتے سوائے اس کےجس کی مثال یسُوع نے اپنی زندگی اور موت کے بعد جی اُٹھنے میں منعکس کی۔آپ کی فروتنی نے آپ کو باپ کے درجہ تک اُٹھایا!دراصل یسعیاہ نبی نے جس ہستی کو دیکھا وہ واقعی یسُوع خود ہیں کیونکہ باپ اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں۔

یُوحنّا ۱۲: ۴۶۔۴۸
۔۴۶ میں نُور ہو کر دُنیا میں آیا ہُوں تاکہ جو کوئی مُجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔ ۴۷ اگر کوئی میری باتیں سُن کر اُن پر عمل نہ کرے تو میں اُس کو مجرم نہیں ٹھہراتا کیونکہ میں دُنیا کو مُجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دُنیا کو نجات دینے آیا ہُوں۔ ۴۸ جو مُجھے نہیں مانتا اور میری باتوں کو قبول نہیں کرتا اُس کا ایک مجرم ٹھہرانے والا ہے یعنی جو کلام میں نے کیا ہے آخری دن وہی اُسے مجرم ٹھہرائے گا۔

افریقہ کے چند دیہاتوں میں خطرناک طاعون کی وبا پھیلتی ہے۔بخار کی وجہ سے لوگ جنگل میں اپنی جھوپڑیوں میں کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔جو ڈاکٹر دیہات میں تفتیش کے لیے گیا تھا اُس نے جان لیا کہ اگر مریض سورج کی روشنی میں چلیں تو اِس طاعون کے جراثیم فوراً مر جائیں گے۔ چنانچہ وہ چلاّیا:"اپنی تاریک جھوپڑیوں میں سے باہر نکل آؤ اور شِفا پاؤ۔یہ جراثیم دھوپ میں مر جائیں گے۔"کئی لوگ باہر روشنی میں نکل آئے اور تندرست ہو گئے۔دوسرے مریض درد کے باعث ڈاکٹر پر یقین نہ کر پائے۔وہ جھوپڑیوں میں ہی رہے اور مر گئے۔ڈاکٹر اور چند شفا یافتہ لوگوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو قریبُ المرگ تھے اور اُن سے پُوچھا: "تُم باہر دھوپ میں کیوں نہ گئے؟" اُنہوں نے جواب دیا:"ہم پر لعنت ہے۔ ہم نے آپ کی باتوں کا یقین نہ کیا کیونکہ وہ اس قدر آسان لگتی تھیں۔ہم بیمار تھے اور تھک گئے تھے۔" ڈاکٹر نے جواب دیا:"تُم طاعون کی وجہ سے نہیں بلکہ میری ہدایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مروگے"۔

یہ مثال یسُوع کی قدرت کی وضاحت کرتی ہے۔آپ راستبازی کے سورج ہیں جو گناہ کی تاریکی پر طلوع ہوتے ہیں، بدی کے منبع پر فتح پانے والے۔جو آپ کے حیرت انگیز نُور میں داخل ہوتا ہے، نجات پاتا ہے۔آپ کا کوئی اور مدعا ہی نہیں سوائے نوعِ انساں کو گناہ اور موت سے نجات دینا۔آپ کا کلام ہمیں تباہ کرنے والی تمام قوّتوں سے آزاد کرسکتا ہے۔جو کوئی آپ کا کلام سُنتا ہے، اُس پر یقین کرتا ہے اور ایمان لاتا ہے وہ آپ کے پاس آکر آپ کی اطاعت کرتا ہے اورابدی زندگی پاتا ہے۔موت کو اُس پر کوئی اختیار نہ ہوگا۔

لیکن جو کوئی آپ کا کلام سُن کر اُسے اپنے دل میں جگہ نہیں دیتا وہ گناہ میں ڈوب جائے گا اور سزا پائے گا اور بیرونی تاریکی میں غرق ہو جائے گا۔چنانچہ اِنجیل بے ایمان لوگوں کے لیے مُنصِف اور اُس کی بربادی کا عنصر بن جاتی ہے ۔کیا تُم نے یسُوع کو اپنا مُنجی تسلیم کر لیا ہے؟کیا تُم یسُوع کا کلام حِفظ کر لیتے ہو اور اُس کے مطابق جینے کا تہیہ کرتے ہو؟

یُوحنّا ۱۲: ۴۹۔۵۰
۔۴۹ کیونکہ میں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا اسی نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔ ۵۰ اور میں جانتا ہُوں کہ اُس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے۔ پس جو کچھ میں کہتا ہُوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے ، اُسی طرح کہتا ہُوں۔

یسُوع خدا کا کلام ہیں۔جب ہم یسُوع کی تقریر سُنتے ہیں تو صرف خدا کے خیالات اور خواہشات سُنتے ہیں۔مسیح تمہارے لیے خدا کا براہِ راست پیغام ہیں۔ بیٹا وفادار تھا، آپ اپنے باپ کی آواز کو سُنا کرتے تھے اور اُس کا انسان کی زبانوں میں ترجمہ کیا کرتے تھے۔خدا آپ کی معرفت خطاکار دنیا سے مخاطب ہوتا ہے گویا یہ کہتا ہو:"میں ابدی خدا ہُوں اور تمہارا باپ ہُوں گا۔میں اپنے فضل سے تمہیں ابدی زندگی عنایت کروں گا۔تُم خدا کے غضب اور تباہی کے مستحق ہو سکتے ہو لیکن پھر بھی میں تُم سے محبّت کرتا ہُوں۔میں اپنا مقدّس بیٹا تمہاری بجائے قربان کرتا ہُوں تاکہ تُم راستباز ٹھرو اور پاک رُوح پاؤ۔تُم مروگے نہیں۔میں التجا کرتا ہُوں کہ میرے مسیح کے ہاتھوں ابدی زندگی حاصل کر لو۔جو ایسا نہ کرے گا وہ بہشت یا حقیقی زندگی نہ دیکھ پائے گا۔"ان الفاظ کے ساتھ خدا دُنیا کو مُفت نجات عنایت کرتا ہے۔لیکن جو مسیح کو بھُلا دیتا ہے یا آپ کو مسترد کرتا ہے وہ اتھاہ گڑھے میں گر جائے گا کیونکہ اُس نے زندگی پانے کے لیے خدا کا حکم مسترد کیا۔

دعا: اے باپ! ہمیں ابدی زندگی عنایت کرنے کے لیے ہم تیرے مشکور ہیں۔ہم نہایت خوشی کے ساتھ تیری تمجید و توصیف کرتے ہیں۔تُونے ہمیں موت سے زندگی میں اور گناہ کی دنیا سے اپنی محبّت میں منتقل کیا۔ہمارے اندر تیرے بیٹے کا کلام محفوظ رکھ اور اسے ہمارے دل و دماغ میں مستحکم کر دے تاکہ ہم پھل لائیں۔اپنی اِنجیل کے ذریعہ بہتوں کی تجدید کراورہمیں ترغیب دے کہ تیرا کلام سب کو پہچا دیں تاکہ وہ جئیں اور نہ مریں۔

سوال ۸۴۔ مسیح میں سب کے لیے خدا کا کون سا حکم ہے؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on April 08, 2012, at 05:24 AM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)