Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":
Home -- Urdu -- John - 078 (The Greeks seek Jesus' acquaintance)
This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula? -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حِصّہ سوّم : رسُولوں کے حلقہ میں نُورچمکتا ہے (یُوحنّا ۱۱: ۵۵۔۱۷: ۲۶)٠

الف : مبارک ہفتہ کا آغاز (یُوحنّا ۱۱: ۵۵۔۱۲: ۵۰)٠

۔۳ : چند یونانیوں کی یسُوع سے ملنے کی خواہش ( یُوحنّا ۱۲: ۲۰۔۲۶)٠


یُوحنّا ۱۲: ۲۰۔۲۴
۔۲۰ جو لوگ عید میں پرستش کرنے آئے تھے اُن میں بعض یونانی تھے۔ ۲۱ پس اُنہوں نے فلِپُّس کے پاس جو بیت صیدائی گلیل کا تھا،آکر اُس سے درخواست کی کہ جناب ہم یسُوع کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ۲۲ فلِپُّس نے آکر اندریاس سے کہا۔پھر اندریاس اور فلِپُّس نے آکر یسُوع کو خبر دی۔ ۲۳ یسُوع نے جواب میں اُن سے کہا: وہ وقت آگیا کہ ابنِ آدم جلال پائے۔ ۲۴ میں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا، اکیلا رہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لاتا ہے۔

جو یُونانی یہودی بن چُکے تھے وہ یروشلیم میں جمع ہُوگئے تھے۔وہ فسح کے لیے یُونانی بولنے والی دُنیا سے آئے تھے۔جب بھیڑ نے یسُوع کا بادشاہ کے طور پر تالیاں بجا کر استقبال کیا تو یہ یُونانی بھی متاثر ہُوئے۔چنانچہ وہ آپ کو بہتر طور پر جاننا چاہتے تھے۔اِس فرمائش میں قوموں کی خواہش کا خلاصہ تھا۔فلِپُّس یُونانی زبان جانتا تھا چنانچہ وہ اپنے دوست اندریاس کے ساتھ اُن کی خاطر بولنے کو راضی ہُوا۔یہ دونوں شاگرد، بے حد متاثر ہوکر یسُوع کے پاس گئے کیونکہ اُنہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ غیر قوموں میں سے یسُوع پر ایمان لانے والوں میں پہلا پھل ہوں گے۔اِن شاگردوں نے محسوس کیا ہوگا کہ یُونانیوں کی سرزمین میں بچ کر نکل جانا، متعصُّب یہودیوں سے لاحق خطرہ سے بہتر ہوتا۔

یسُوع نے اُن کے خیالات کو جان لیا، ٹھیک اُسی طرح جیسے یُونانیوں کی درخواست میں دوسری قوموں کی خواہش کو جانا تھا۔آپ نے ایک اہم بُلاوا بھیجا جو بآسانی سمجھ میں نہ آسکا۔پھر بھی وہ فتح کا بُلاوا تھا اور وہ یُوحنّا کی اِنجیل کا دستورُ العمل بننے والا تھا: "ابنِ آدم کے جلال پانے کا وقت آ پہنچا ہے۔" آپ کی تعظیم کا وقت آ پہنچا ہے اور آسمان اور زمین کو جس گھڑی کا انتظار تھا وہ نزدیک آ رہی ہے۔

پھر بھی ایک سے بڑھ کر ایک معجزے دکھانا، معرکہ میں فتوحات اور سیاسی اقتدار پانا، یسُوع کے جلال کی نشانیاں نہ تھیں۔یُوحنّا اونچے پہاڑ پر یسُوع کے چہرہ کے بدل جانے کا تذکرہ نہیں کرتے کیونکہ وہ اُسے اصلی جلال نہیں مانتے۔البتّہ وہ مسیح کے جلال پانے کو آپ کی موت سے منسلک کرکے اُس کا تذکرہ کرتے ہیں۔وہاں ہم صلیب پر آپ کی اُلوہیّت کی اصلیت کو دیکھتے ہیں جو محبّت ہے۔

یسُوع نے خود کو گیہوں کا دانہ کہا یعنی آسمانی بیج جو زمین پر گرا تاکہ اپنے آپ کو خالی کردے اور راستبازی اور جلال ظاہر کرے۔یسُوع ہمیشہ پُرجلال رہے۔آپ کی موت ہم بدکاروں کی تقدیس کرتی ہے تاکہ ہم آپ کی عظمت میں شریک ہونے کے قابل بن سکیں۔یُونانیوں کے آنے سے یہ خوش آمدید بُلاوا اُبھر آیا کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہر قوم کے لوگوں کو بُلاتے ہیں۔آپ اُن آئے ہُوئے لوگوںمیں اپنا اصلی جلال نئے سرے سے ڈال دیں گے۔ وہ جلال ساری تخلیق میں صرف صلیب کے ذریعہ سرایت کرے گا۔

یُوحنّا ۱۲: ۲۵۔۲۶
۔۲۵ جو اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ اُسے کھو دیتا ہے اور جو دنیا میں اپنی جان سے عداوت رکھتا ہے وہ اُسے ہمیشہ کی زندگی کے لیے محفوظ رکھے گا۔ ۲۶ اگر کوئی شخص میری خدمت کرے تو میرے پیچھے ہو لے اور جہاں میں ہُوں وہاں میرا خادم بھی ہوگا،۔اگر کوئی میری خدمت کرے تو باپ اُس کی عزّت کرے گا۔

یسُوع ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کی موت کا طریقہ اور جلال پانا آپ کے شاگردوں پر بھی لاحق آتا ہے۔جس طرح بیٹے نے اپنے جلال کو خیرباد کہا اور خود کو ایزدی اوصاف سے خالی کر لیا تاکہ نوعِ انساں کو نجات دلا سکے، اسی طرح ہمارا ارادہ بھی عظیم شخصیت یا نامور ہستی بننا نہیں بلکہ متواتر خود اِنکاری کرنا ہے۔اپنا جائزہ لیجیے۔کیا تُم خود سے محبّت کرتے ہو یا نفرت؟مسیح کہتے ہیں کہ اگر تُم خود کو نظر انداز کرو اور ایمانداری سے آپ کی بادشاہی میں خدمت کرو تو ایزدی زندگی پاؤگے اور اپنی جان کو ابدی زندگی کے لیے محفوظ رکھ سکوگے۔ان الفاظ کے ساتھ یسُوع تُم کو حقیقی جلال کا منشور بتاتے ہیں:اپنی خواہشوں کی خوشنودی کے لیے نہ جِیو، نہ کاہل یا مغرور بنو بلکہ خدا کی طرف لوَٹ آؤ، اُس کے احکام کو سُنو اور بدبخت اور بد اخلاق لوگوں کو ڈھونڈ کر اُن کی خدمت کرو ٹھیک اسی طرح جیسے آپ نے خود کو جلال سے بالکل خالی کر لیا تاکہ زانیوں اور ڈاکوؤں کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھیں۔اِنجیل کی خاطر ایسے گنہگاروں کے ساتھ رفاقت رکھنے سے خدا کا جلال تمہاری زندگی میں سرایت کر جائے گا۔یہ نہ سوچو کہ تُم دوسروں سے بہتر ہو۔ صرف یسُوع ہی تُم کو تمہاری ناکامیوں کے باوجود دوسروں کے جیسے پاک و صاف بنا دیں گے۔ یہ تبدیلی صرف خود انکاری سے آتی ہے۔

جب مسیح نے یہ واضح کیا کہ آپ کے لیے ہماری خدمت کا مطلب آپ کی پیروی اور تقلید کرنا اور آپ کی تضحیک اور تحقیر میں شریک ہونا ہے جو بعض اوقات آپ نے برداشت کی تھی تب آپ نے صاف لفظوں میں یہ اُصول پیش کیا۔راہ، عیش و عشرت او شیخی کے ساتھ شان و شوکت کی خاطر نہیں ہے۔مسیح کے پیرو اس کی توقع نہ رکھیں۔اُنہیں ترک کیے جانے، دشمنی، اذیّت، یہاں تک کہ موت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔کیا تُم مسیح کے نام کے لیے تکلیف اُٹھانے کے لیے تیّار ہو؟ مسیح وعدہ کرتے ہیں:" جہاں میں ہُوں وہاں میرا خادم بھی ہوگا۔" یسُوع آپ سے پہلے تکلیف دہ راہ پر سے گزر چُکے ہیں۔آپ تمہارے ساتھ بھی تکلیف اُٹھاتے ہیں اس سفر میں مسیح کے خادموں کا موضوع، صریح عظمت نہیں ہے۔ خود کی خوشنودی میں ہماری راحت نہیں ہے بلکہ حاجتمندوں کی خدمت میں ہے۔ مسیح کا نام آپ کے پیروؤں کی قربانی کی رُوح میں جلال پاتا ہے۔جب ہم اُس کے بیٹے کی مانند بن جاتے ہیں تب باپ کا نام بھی جلال پاتا ہے۔

جس طرح مسیح آج اپنے باپ کے تخت پر جلوہ نشیں ہیں اور اُس کے ساتھ مکمل رفاقت اور اتّحاد میں ہیں، اسی طرح جو آج یسُوع کی خاطر ستائے جاتے ہیں وہ زندہ رہیں گے اور اپنے آسمانی باپ سے مل جائیں گے۔یہ ایک عظیم راز ہے۔تُم کیا سوچتے ہو؟ وہ کون سا اعزاز ہوگا جو باپ اپنےمحب بیٹے کے خادموں کو پیش کرے گا؟ وہ اپنی شبیہہ اُن میں دوبارہ ڈال دے گا جیسے تخلیق کے وقت کیا تھا۔اس سے بھی بڑھ کر وہ اپنی رُوح کی معموری میں اُن پرنازل ہوگا۔ وہ اس کے بیٹے کی مانند اُس کی اولاد بنیں گے تاکہ اس کا بیٹا بہت سارے بھائیوں میں پہلوٹھا شمار کیا جا سکے۔ وہ ہمیشہ اپنے باپ کے ساتھ بہشت میں ہوں گے(رُومیوں ۸: ۲۹؛ مکاشفہ ۲۱: ۳۔۴)۔

دعا: خداوند یسُوع! ہم آپ کا شکر بجا لاتے ہیں کیونکہ آپ اپنے جلال سے لطف اندوز ہونے کے لیے راضی نہ ہُوئے بلکہ اپنی عظمت سے بھی سبکدوش ہُوئے ۔ ہم ایسی فروتنی کے لیےآپ کی عبادت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ آپ ہمیں بھی خود اپنے ہی اطمئنان و تسلّی اور فخر سے بری کریں گے تاکہ ہم اس آزادی کو جانیں جو آپ کا رُوح دیتی ہے جس کے ذریعہ ہم آپ کی خدمت کر پاتے ہیں اور اپنی ز ندگی میں آپ کی محبّت کو جانتے ہیں۔

سوال ۸۲۔ مسیح کی موت کو سچّائی کا جلال پانا کیوں سمجھا جاتا ہے؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on April 08, 2012, at 04:59 AM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)