Waters of Life

Biblical Studies in Multiple Languages

Search in "Urdu":
Home -- Urdu -- John - 041 (Jesus withdraws from the clamor for his crowning; Jesus comes to his disciples in distress)
This page in: -- Albanian -- Arabic -- Armenian -- Bengali -- Burmese -- Cebuano -- Chinese -- Dioula? -- English -- Farsi? -- French -- Georgian -- Greek -- Hausa -- Hindi -- Igbo -- Indonesian -- Javanese -- Kiswahili -- Kyrgyz -- Malayalam -- Peul -- Portuguese -- Russian -- Serbian -- Somali -- Spanish -- Tamil -- Telugu -- Thai -- Turkish -- Twi -- URDU -- Uyghur? -- Uzbek -- Vietnamese -- Yiddish -- Yoruba

Previous Lesson -- Next Lesson

یُوحنّا کی اِنجیل - نُور تاریکی میں چمکتا ہے

کتابِ مقُدّس میں مُندرج، یُوحنّا کے مطابق مسیح کی اِنجیل پر مبنی سِلسِلۂ اسباق

حصّہ دوّم : نُور تاریکی میں چمکتا ہے (یُوحنّا ۵: ۱ ۔ ۱۱: ۵۴)٠

ب : یسُوع زندگی کی روٹی ہیں۔ (یُوحنّا ٦: ١- ٧١)٠

۔۲۔ یسُوع اپنی تاج پوشی کے لیےشور و شرر سے ہٹ جاتے ہیں (یُوحنّا ٦: ۱۴۔۱۵)٠


یُوحناّ ٦: ۱۴۔۱۵
۔۱۴ پس جو معجزہ اُس نے دکھایا وہ لوگ اُسے دیکھ کر کہنے لگے جو نبی دُنیا میں آنے والا تھا، فی الحقیقت یہی ہے۔ ۱۵ پس یسُوع یہ معلوم کر کے کہ وہ آکر مجھے بادشاہ بنانے کے لیے پکڑا چاہتے ہیں، پھر پہاڑ پر اکیلا چلا گیا۔

یسُوع دُنیا میں نوعِ اِنساں کو جیتنے کے لیے آئے۔پانچ ہزار کو کھلانے کے بعد لوگ نہایت اشتیاق سے آپ کے گرد جمع ہوگئے۔وہ تالاعں بجا کر اور ناچتے گاتےہُوئے آپ کو بادشاہ کی حیثیت سے خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے تھے۔ وہ جان گئے کہ گلیل کا یہ باشندہ خدا کا آدمی ہے اور خدا کی آواز اُس کے مُنہ سے نکلتی ہے اور خدائی تعالیٰ کی قدرت اُس میں بامِ عروج کو پہنچی ہے۔ کائنات اُس کی اطاعت کرتی ہے۔ جس طرح موسیٰ نے بیابان میں اُنہیں روٹی مہیا کی تھی اُسی طرح اُس نے بھی اُنہیں کھلایا۔ یہ وہی نبی ہے جو اِس حقیر قوم کو سچّائی کی طرف راغب کرے گا (استثنا ۱۸: ۱۵)۔اُنہوں نے یہ بھی سوچا کہ اگر یسُوع اُن کے بادشاہ بنتے ہیں تو مستقبل میں اُنہیں محنت کرنے یا تھکنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ "ہمیں آسمانی نوشتوں کا مطالعہ کرنے اور دعا کرنے کے لیے وقت ملے گا اور آپ ہمیں افراط سے کھانا مہیا کریں گے۔ایسا بادشاہ اِس قدر زور آور ہوگا کہ وہ رومی فوج کو شکست دے گا۔آپ آسمان سے آگ برساکر رومی افواج کو بھسم بھی کر سکتے ہیں۔لہٰذا آئیے ہم آپ کی تاج پوشی کریں اور اپنا بادشاہ بنائیں۔" وہ سب ایک ہوکر آپ کے پاس آئے تاکہ آپ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا لیں۔وہ آپ کو اِس اُمیّد پر اپنے کندھوں پر سنبھالنا چاہتے تھے تاکہ آپ اُن کی روز کی غذا مہیا کرتے رہیں۔

اِس ہر دل عزیز تحریک کی جانب یسُوع کا ردِّ عمل کیا تھا؟ کیا آپ لوگوں کا اپنے اوپر اعتماد دیکھ کر خوش ہُوئے اور اُن کا شکر ادا کیا؟کیا آپ نے اِس آزمائش سے مغلوب ہوکر، بے ایمان لوگوں کی مدد سے اپنی بادشاہی قائم کی یا آپ نے اُن کے منصوب ٹھکرا دئیے؟جی نہیں، آپ نے ایک لفظ بھی نہ کہا، بلکہ بیابان میں چلے گئے۔آپ کولوگوں کی حمایت درکار نہ تھی بلکہ آپ خدا کے سہارے پر اکتفا کیے ہُوئے تھے۔یسُوع اِن جوشلے لوگوں کے حالات سے واقف تھے جو جنون میں شرابور ہوکر آپ کی نصیحتوں کو سُن نہ سکتے تھے۔یہ ایک سیاسی تخیُّل تھا جسے لوگوں نے اپنا منصوبہ بنا لیا تھا۔

یسُوع کا ارادہ، دنیاوی بادشاہی قائم کرنے کانہ تھا بلکہ آپ چاہتے تھے کہ لوگوں کو یکے بعد دیگرے توبہ کرنے اور از سرِ نَو پیدا ہونے کے لیے راغب کریں۔ از سرِ نَو پیدایش کے بغیر کوئی شخص خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا ۔عوام یسُوع کے معجزات اور نشانوں کا مقصد سمجھ نہ پائے۔جہاں یسُوع نے رُوحانی بھوک مٹانے کے لیے پاک رُوح کے متعلق بات کی وہاں اُسے لوگوں نےدُنیا کی روٹی سمجھا۔جسے اُنہوں نے دناووی تسلُّط اور مرجھانے والی شان و شوکت سمجھا وہاں آپ نے صلیب کو اپنی بادشاہی کے بنیادی عنصر کے طور پرچُن لیا۔آپ کے توبہ کیے بنا اور از سرِ نَو پیدا ہُوئے بنا، آپ وہ لطف نہیں اُٹھا سکتے جومسیح نے آپ کو خوش آمدید کہنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

یسُوع لوگوں کے خراجِ عقیدت کے محتاج نہ تھے۔ آپ لوگوں کی مدح سرائی بھی قبول نہ کرتے تھےبلکہ اپنے باپ کی آواز سُنا کرتے تھے۔ آپ نے شیطان کی آزمائش کے لیے اپنے دل کا دروازہ بند کر رکھا تھا۔آپ دعا کرنے کے لیے کسی مناسب جگہ جاکر خلوت نشین ہُوا کرتے تھے اور اپنے باپ کا شکر بجا لاتے تھے اور اُس سے استدعا کرتے تھے کہ وہ اپنے رُوح کے ذریعہ اندھوں کی آنکھیں کھول دے۔آپ نہ چاہتے تھے کہ لوگ آپ کی تاج پوشی کریں کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آج اگر وہ "ہوسعنا" کہیں گے تو کل پکار اُٹھیں گے کہ "اُسے صلیب دو۔"مسیح ہمارے دلوں کے بھید جانتے ہیں اور آپ کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔


۔۳۔ جب شاگرد مصیبت کا شکار ہُوئے تو یسُوع اُن کی مدد کو پہنچے (یُوحنّا ٦: ۱٦۔۲۱)٠


یُوحناّ ٦: ۱٦۔۲۱
۔۱۶ پھر جب شام ہُوئی تو اُس کے شاگرد جھیل کے کنارے گیے ۱۷ اور کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے پار کُفر نحوم کو چلے جاتے تھے۔اُس وقت اندھیرا ہو گیا تھا اور یسُوع ابھی تک اُن کے پاس نہ آیا تھا ۱۸ اور آندھی کے سبب سے جھیل میں موجیں اُٹھنے لگیں۔ ۱۹ پس جب وہ کھیتے کھیتے تین چار میل کے قریب نکل گیے تو اُنہوں نے یسُوع کو جھیل پر چلتے اور کشتی کے نزدیک آتے دیکھا اور ڈر گئے۔ ۲۰ مگر اُس نے اُن سے کہا: میں ہُوں، ڈرو مت۔ ۲۱ پس وہ اُسے کشتی میں چڑھا لینے کو راضی ہو ئے اور فوراً وہ کشتی اُس جگہ جا پہنچی جہاں وہ جاتے تھے۔

جب یسُوع گولان کی پہاڑیوں میں خلوت نشین تھے تب آپ نے کہیں دور اپنے شاگردوں کو مصیبت میں پھنسے ہُوئے دیکھا۔وہ طوفان میں پھنس گئے تھے اور بالکل تھک گئے تھے۔جب رات کا اندھیرا چھانے کو تھا تو آپ جھیل کے پانی کی لہروں پر چلتے ہُوئے اُن کے قریب پہنچے۔ آپ نے اُنہیں خطرہ کا سامنا کرنے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا لیکن شاگردوں نے آپ کو بھوت سمجھا اور خوف زدہ ہو گئے۔بعض اوقات مچھیرے یہ تصّور کرتے ہیں کہ وہ بھوت دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ رات کا اکثر حِصّہ پانی کی سحو پر گزارتے ہیں۔یسُوع وہاں پہنچے اور نہایت صاف لیکن شفقت بھرے الفاظ میں کہا: "میں ہُوں۔"یہ کلمہ رسولوں کے ایمان کی بنیاد بن گیا۔ہم پرانے عہدنامہ میں ایسا ہی ایک اور فقرہ، "میں ہُوں،" پاتے ہیں جو ایمان لائے ہُوئے لوگوں کے درمیان خداوند کی موجودگی جتاتا ہے۔شاگردوں کو تب احساس ہُوا کہ یسُوع ہر شَے پر اختیار رکھتے ہیں:روٹی آپ کے ہاتھوں میں افزائش پاتی ہے، آپ لہروں پر چل پاتے ہیں اور آپ کے حکم سے طوفان بھی تھم جاتا ہے۔یہ جان کر وہ اور بھی زیادہ ڈر گئے۔ لہٰذا آپ نے اُنہیں کہا کہ وہ نہ ڈریں۔آپ کایہ فقرہ کہ "ڈرو مت،" آپ کے پیروؤں کے واسطے ہمیشہ کے لیے حکم بن کے رہ گیاہے اور کتاب ِمقدّس مین ۳۶۵ مرتبہ دہرایا گیا ہے یعنی سال میں ہر دِن کے لیے ایک بار۔مسیح کی موجودگی پر اعتقاد رکھنے سے ہمارے خوف دور ہو جاتے ہیں۔آپ کسی بھی حالت میں ہوں یا آپ کا مسلہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو، یسُوع ہمیشہ یہی کہتے ہیں: "میں ہُوں، ڈرو نہیں"۔

جب شاگردوں نے یسُوع کو پہچانا تو اُنہیں تعجب ہُوا اور اُنہوں نے آپ کو کشتی میں لے لیا اور فوراً وہ ساحل پر پہنچ گئے۔یہ اُسی روز کے معجزہ کا تیسرا حِصّہ ہے۔یسُوع خلا اور وقت کے خداوند ہیں اور آپ کلیسیا کی کشتی کو طوفان اور لہروں کے بیچ میں سے نکال کر منزلِ مقصود تک پہنچا دیتے ہیں۔ یسُوع اپنے شاگردوں سے محبّت رکھتے ہیں اور اُن کے پاس بھی آتے ہیں بشرطیکہ وہ آپ پر مکمل اعتماد رکھیں۔جب شاگرد تاریکی میں گھِرے ہوں یا آزمائش میں مبتلا ہوں تب آپ اُن کے اعتماد کو تقویت دیتے ہیں تاکہ اُن کا خوف دور ہو اوروہ ہمیشہ آپ سے لِپٹے ہُوئے رہیں۔

سوال ۴۵۔ کس وجہ سے یسُوع نے لوگوں کے ہاتھوں بادشاہ بنائے جانے سے انکار کیا؟

www.Waters-of-Life.net

Page last modified on April 17, 2012, at 10:33 AM | powered by PmWiki (pmwiki-2.3.3)